Tuesday, 16 February 2016

تاج محل، کچھ حقائق اور کچھ افواہیں

بھارت کا نام سنیں تو سب سے پہلا خیال تاج محل کا آتا ہے اس کے مینار محراب اور ونیلایعنی مخروطی گنبد اپنے دیکھنے والے کو سحر انگیز کردیتے ہیں۔ ایک ایسا جادو بھرا منظر کہ سیاح دنیا ہی بھول جائیں۔ یہ عجوبہ اپنی بناوٹ میں کہیں بھی جھوٹ بولتا نظر نہیں آتا۔ اس کے چاروں طرف عشق رقصاںہے اور شاہ جہاں کی پر سرور روح لوگوں کے تاثرات دیکھ کر چار سو سال قبل تعمیر ہونے والے اس شاہکار پر فخر محسوس کر رہی ہے۔
یونیسکو نے تاج محل کو دنیا کا سب سے امیر ورثہ قراردیا ہے۔ اورنوبل آف انڈیا نے تو اسے ’’وقت کے گال پر لڑحکتا آنسو ‘ قراردیا ہے۔
تاج محل کے حوالے سے جدید تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ دریائے جمنا میں تیرتا ہوا ایک پراسرار شاہکار تھا جو آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے۔
 آج بھی تاج محل میں ایک شاندار مسجد ہے جس میں لوگ جمعہ کی نماز ادا کرنے دوردراز سے آتے ہیں اور یہاں تک پہنچنے کیلئے دریائے جمنا میں خصوصی کشتیاں بھی استعمال کرتے ہیں۔








۔ یہاں ہم چند حقائق پر بات کرتے ہیں جو محبت کی اس نشانی یعنی تاج محل سے منسوب ہیں۔
1 مندر ہے کہ مقبرہ ۔پروفیسر بلراج مدھوک، اوک اور کے نریندر جیسے خود ساختہ مورخ دنیا کی اس بے مثال عمارت کو شاہ جہاں اور ممتاز محل کی لافانی محبت کی نشانی نہیں سمجھتے بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ عمارت راج پوت راجہ پرماردیو کا محل یا شیومندر تھاجس پر مغل شہنشاہ نے قبضہ کرکے اپنی ملکہ کے مقبرہ میں تبدیل کردیا۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے نفیس سنگ مرمر سے تعمیر یہ روضہ اپنی محبت کی نشانی کے طور پر پانچویں مغل حکمراں شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا، فارسی زبان میں ایسی تاریخوں کی کمی نہیں جس میں اس عمارت کی تفصیلی کیفیات اور بنانے والوں کے نام تک درج ہیں ۔ اس ضمن میں عدالت نے اس استدال کو مسترد کر دیا۔ ان کے علاوہ کسی اور کی یہ جرأت نہ ہوسکی کہ وہ تاج محل کوعشق و محبت پریوں جنوں کی کہانی قراردے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کوئی سو پچاس سال کی کہانی نہیں، یہاں ہندوئوں کا مندر ہوتا تھا لیکن مغل دور میں کچھ مسلمان حکمرانوں نے اپنے عزیزوں کو یہاں دفنایا تھا اس لئے وہ دعویدار ہوگئے۔ ہمایوں اکبر اورصفدر جنگ کو بھی ایسی ہی عمارتوں میں دفن کیا گیا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ شیوا کا مندر تھا تو اس کے دعویٰ میں اربوں ہندوئوں میں سے صرف چند لوگ ہی یہ آواز کیوں بلند کر رہے ہیں ۔ ہوسکتا ہے ان کی وجہ صرف سستی شہرت کا حصول ہو؟کیاوہ ایسا کر کے آنے والی نسلوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟ -
2 مردانہ برتری کی جھلک۔ شاہ جہان کی موت کے بعد انہیں تاج محل میں ممتاز محل کے مقبرے میں ہی دفنایا گیا۔ یہ مقبرہ شاہ جہان کی محبت کی نشانی تھا جس کے پرشکوہ مینار آج بھی اس محبت کی یاد دلاتے ہیں۔ جو صدیاں پہلے برصغیر کی راجدھانی میں پنپی تھی۔ یہ کہانی رومیو جیولیٹ کی کہانی سے مختلف نہ تھی لیکن محبت کی اس داستان میں یہ نکتہ واضح طور پر سامنے آیا کہ یہاں بھی مردانہ برتری واضح ہے۔ اس محل کو جیومیٹری کے مسلمہ اصولوں کے مطابق تعمیر کروایا تھا لیکن محل میں واقع مقبروں کے مینار کا سائز مختلف ہے۔ شاہ جہان کے مقبرے کے مینار ممتاز محل کے مقبرے سے زیادہ بلند ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا مردانہ برتری کو واضح کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔
3 ستونوں کے راز۔ تاج محل کے چار مینار ہیں چاروں کے چاروں محل کی بنیاد سے اٹھائے گئے ہیں اورایسا زلزلے کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کیلئے کیا گیا۔ اگر کبھی ایسا ہو بھی جائے تو صرف مینار ہی گرے گا اور باقی عمارت محفوظ رہے گی۔ یہ بات راز کی ہے کہ سیاح ہر طرف سے چاروں میناروں کو ایک ہی زاویے سے دیکھ سکتے ہیں اس وقت کے ماہر تعمیرات نے اس کی تعمیر میں فیثاغورث کا فارمولا اپنایا اور توازن کے تمام ریاضیاتی فارمولوں سے استفادہ کیا۔ –
4 فرضی کہانیاں ۔تاج محل کے ساتھ بھی بہت سی فرضی کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاہ جہاں دریائے جمنا پر ایک سیاہ تاج محل بھی بنوانا چاہتے تھے۔ شاہ جہان نے اپنی اس خواہش کا اظہار اپنے ماہرین تعمیرات سے کیا ہے کہ تاج محل کے مقابلے  میں اس طرز کا سیاہ تاج محل بھی بنایا جائے لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اورنگزیب عالمگیر نے اس منصوبے کو آڑے ہاتھوں لیا اور اپنے باپ کو قید کرکے ہندوستانی عوام کے پیسے کو مزاروں مقبروں پر خرچ کرنے سے بچایا۔ آج بھی دریائے جمنا کے کنارے اس کالے محل کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک اور کہانی بھی ہمیشہ گردش میں رہی کہ شاہ جہاں نے ان تمام معماروں کے ہاتھ قلم کروا دیئے جنہوں نے یہ شاہکار بنایا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی رہی ہے کہ اس شاہکار کی نقل نہ کی جا سکے۔ –
5 محل کے بدلتے رنگ۔ ماہرین کے مطابق تاج محل کو عجوبہ بنانے کی ایک دلیل یہ ہے کہ سارا دن اس کے رنگ بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے رنگوں کو یہ خاصیت خواتین کے موڈ کی عکاسی کرتی ہے خاص طورپر ملکہ ممتاز محل کے مزاج کی۔ صبح کے وقت اس محل کو گلابی شیڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جبکہ شام کو دودھیا سفید اور چاندنی رات کو سنہری دکھائی دیتا ہے۔ -6 کتنا سرمایہ خرچ ہوا۔ اس شاہکار کی تعمیرپر 320 ملین بھارتی روپے خرچ ہوئے تھے۔ استاد احمد لاہور کی سربراہی میں 22ہزار مزدوروں نے دن رات اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔ اس تعمیر کا سارا کریڈٹ استاد احمد لاہوری کوجاتا ہے۔ ان مزدوروں میں ہر طرح کے کاریگر بھی شامل تھے۔ ایک ہزار سے زائد ہاتھیوں نے بلڈنگ مٹیریل کو لانے لے جانے کا فریضہ  سرانجام دیا۔ –
7 سنگ مر مر اورمقبرہ ۔تاج محل میں خالصتاً سفید پتھر یعنی سنگ مر مر استعمال ہواہے اس ضمن میں چین، عرب، افغانستان اور سری لنکا سے مختلف رنگوں کے قیمتی پتھر منگوائے گئے جن میں سے تقریباً 30 طرح کے پتھروں کو استعمال میں لایا گیا۔ ان پتھروں کی قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انگریزراج میں برصغیر سے بیش قیمت پتھروں کو اکھاڑ کر برطانیہ لے جایا گیا۔ تاج محل کی خوبصورتی کا منبع اس کا مقبرہ ہے۔ جسے پیاز کی شکل کا بنایا گیا۔ خوبصورت خطاطی میں اللہ پاک کے 99ناموں کو بھی کندہ کروایا گیا ہے۔ تاج محل کی مجموعی بلندی 171 میٹر ہے۔ –
8 بائیس سال میں مکمل ہوا۔ تاج محل جسے محلوںکا تاج کہا جاتا ہے اس کی تعمیر میں 22برس لگے یہ 1631ء میں شروع کیا گیا اور 1654ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ یہ شاندار عجوبہ اسلامی، ایرانی اور ہندوستانی فن تعمیر کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
9محبت کا خلاصہ۔ ارجمندبانو بیگم بہت حسین و جمیل خاتون تھیں۔ شاہ جہاں ان کی محبت میںگرفتار ہوئے اورپھر شادی کرلی۔ وہ شاہ جہاں کی تیسری بیوی تھیں انہیں ممتاز محل کا خطاب دیا گیا جو کہ ہندی زبان سے لیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ’’ محلوںکا جادو ‘‘ ۔ ممتاز محل اپنے 14 ویں بچے کو جنم دیتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ یہ سانحہ شاہ جہاں کیلئے اس قدر شدید تھا کہ چند ہی مہینوں میں ان کے بال اور داڑھی سفیدہوگئی۔
10 سیاحت دنیا کے سات عجائب میں سے ایک عجوبہ تاج محل ہے۔ یہاں ایک ملین سے زائد سیاح یہاں کی سیر کو آتے ہیں ۔ 2001ء میں دو ملین سے زائد لوگوں نے یہاں کا رخ کیا تھا۔اسے آگرے کا برج بھی کہا جاتا ہے۔ تاج محل میں داخلے کی ٹکٹ کی شرح مقامی لوگوں کیلئے سستی ہے جبکہ غیر ملکیوں کو یہ سہولت نہیں ہے۔ اس سے کروڑوں کا زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ ان تمام گاڑیوں پر یہاں پابندی عائد ہے جو آوارگی کا باعث ہوں۔ 

Saturday, 30 January 2016

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﮐﺎ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ 20ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎ۔ 23 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻘﺪﻭﻧﯿﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻮﻧﺎﻥ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺗﺮﮐﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ، ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﺍ ﮐﻮ ﺷﮑﺴﺖ ﺩﯼ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺷﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﻣﺼﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺍٓﯾﺎ، ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺱ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﻟﮍﯼ، ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺍﺯ ﺟﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺎﻟﯿﮧ ﺷﮩﺮ ﺍٓﺑﺎﺩ ﮐﯿﺎ، ﻣﮑﺮﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ، ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ
ﭨﺎﺋﯿﻔﺎﺋﯿﮉ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ 323 ﻗﺒﻞ ﻣﺴﯿﺢ ﻣﯿﮟ 33 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ
ﮐﺮ ﮔﯿﺎ، ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﻋﻈﯿﻢ ﺟﺮﻧﯿﻞ، ﻓﺎﺗﺢ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺩﯼ ﮔﺮﯾﭧ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﻨﺎﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﺍﮐﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﯿﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭﺍﻋﻈﻢ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﺯﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍٓﭖ ﺑﮭﯽ ﺳﻮچئے.

ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮔﮭﮍﺳﻮﺍﺭﯼ ﺳﮑﮭﺎﺋﯽ، ﺍﺳﮯ ﺍﺭﺳﻄﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺻﺤﺒﺖ ﻣﻠﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﯿﺲ
ﺳﺎﻝ ﮐﺎ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﺨﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺝ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ 7 ﭘﺸﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ ﺗﮭﺎ، ﺍٓﭖ ﺑﮭﯿﮍ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﭼﺮﺍﺗﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﺑﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍﻧﺪﺍﺯﯼ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺍﮐﯿﮉﻣﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﯿﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔

ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﻋﻈﻢ ﻧﮯ ﺍٓﺭﮔﻨﺎﺋﺰﮈ ﺍٓﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ 10 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ 17 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ 10 ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺭﮔﻨﺎﺋﺰﮈ ﺍٓﺭﻣﯽ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ 22 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺳﭙﺮ ﭘﺎﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﯿﮟ۔

ﺍٓﺝ ﮐﮯ ﺳﯿﭩﻼﺋﭧ، ﻣﯿﺰﺍﺋﻞ ﺍﻭﺭ ﺍٓﺑﺪﻭﺯﻭﮞ
ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﭩﮫ ﭘﺮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﺍﺋﯽ
ﺗﮭﯽ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻭ ﺍﻧﺼﺮﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﭼﻼﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﻧﮯ ﻓﺘﻮﺣﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺟﺮﻧﯿﻞ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﺍﺋﮯ، ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺟﺮﻧﯿﻠﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌﺍ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺑﻐﺎﻭﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺍٓﮔﮯ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﺳﺮﺗﺎﺑﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ.

ﻭﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﻤﺎﻧﮉﺭ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺳﭙﮧ ﺳﺎﻻﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻣﻌﺰﻭﻝ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﭨﺎﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﺍﺑﯽ ﻭﻗﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﮐﻮﻓﮯ ﮐﯽ ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﺳﮯ ﮨﭩﺎ ﺩﯾﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﮐﻌﺐ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ
ﮔﻮﺭﻧﺮﯼ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﮯ ﻟﯽ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺍﻟﻌﺎﺹ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﺿﺒﻂ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺣﻤﺺ ﮐﮯ ﮔﻮﺭﻧﺮﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﻼ ﮐﺮ ﺍﻭﻧﭧ ﭼﺮﺍﻧﮯ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﻋﺪﻭﻟﯽ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ۔

ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭﻧﮯ 17 ﻻﮐﮫ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﺎ ﻋﻼﻗﮧ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﻈﺎﻡ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺳﺴﭩﻢ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺎ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﺩﯾﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺋﺞ ﮨﯿﮟ،

✅ ﺳﻦ ﮨﺠﺮﯼ ﮐﺎ ﺍﺟﺮﺍ ﮐﯿﺎ۔
✅ ﺟﯿﻞ ﮐﺎ ﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔
✅ ﻣﻮٔﺫﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮨﯿﮟ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮟ
✅ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪ ﻭ ﺑﺴﺖ ﮐﺮﺍﯾﺎ.
✅ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔
✅ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﻤﻞ ﻋﺪﺍﻟﺘﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ۔
✅ ﺍٓﺏ ﭘﺎﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮﺍﯾﺎ۔
✅ ﻓﻮﺟﯽ ﭼﮭﺎﻭٔﻧﯿﺎﮞ ﺑﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﻣﺤﮑﻤﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯿﺘﮯ ﺑﭽﻮﮞ، ﻣﻌﺬﻭﺭﻭﮞ، ﺑﯿﻮﺍﻭٔﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻭﻇﺎﺋﻒ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﯿﮯ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ، ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﯾﺪﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮈﮐﻠﯿﺌﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎﺗﺼﻮﺭ ﺩﯾﺎ۔
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺍﻧﺼﺎﻓﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺠﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ
ﮐﯿﺎ
✅ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮐﻼﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ۔
✅ ﺍٓﭖ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﻗﺎﻓﻠﻮﮞ
ﮐﯽ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﺪﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﺳﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﺗﮭﺎ ’’ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻗﻮﻡ ﮐﺎ ﺳﭽﺎ ﺧﺎﺩﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔‘‘

ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ
’’ﻋﻤﺮ ! ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﺕ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ‘‘۔

◾ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﻥ ﭘﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭ ﺳﺎﻟﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮔﺌﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺍﯾﻨﭧ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﻧﯿﻨﺪ ﺍٓﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﺮ ﭼﺎﺩﺭ ﺗﺎﻥ ﮐﺮ ﺳﺎﯾﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﮯ
ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﺭﺍﺯ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﺮ 14ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﯿﻮﻧﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺥ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﭘﯿﻮﻧﺪ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﺍٓﭖ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﮭﺮﺩﺭﺍ ﮐﭙﮍﺍ ﭘﮩﻨﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﺗﮭﯽ۔
◾ ﺍٓﭖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﺨﻤﯿﻨﮧ ﻟﮕﻮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻋﮩﺪﮮ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺎﺛﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮐﺎﻭٔﻧﭩﺒﻠﭩﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
◾ ﺍٓﭖ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺮﮐﯽ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ، ﺑﺎﺭﯾﮏ ﮐﭙﮍﮮ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﻨﺎ، ﭼﮭﻨﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﭨﺎ ﻧﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ، ﺩﺭﺑﺎﻥ ﻧﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ۔
◾ ﺍٓﭖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ ﻣﻈﻠﻮﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ.
◾ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻓﻘﺮﮦ ﺍٓﺝ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﭨﺮ ﮐﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ۔ "ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍٓﺯﺍﺩ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﺳﮯ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎﻟﯿﺎ۔"

◾ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﺜﺮ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ "ﻋﻤﺮ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﯿﺎ۔‘‘

◾ ﺍٓﭖ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺗﮭﮯ، ﺟﻨﮩﯿﮟ ’’ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻤﻮﻣﻨﯿﻦ ‘‘ ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺬﺍﮨﺐ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﮨﮯ ، *ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﻋﺪﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻭﮦ ﺷﺨﺼﯿﺖ
ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺧﺼﻮﺻﯿﺖ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﺍ ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻋﺪﻝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻋﺪﻝِ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔

ﺍٓﭖ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻘﺮﻭﺽ ﺗﮭﮯ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﻣﮑﺎﻥ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﻗﺮﺽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻭﺍﺣﺪ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﻣﺮﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﻋﻤﺮ‏( ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ‏)
ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﮨﻮﮔﯽ۔

ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻋﺪﻝ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺣﺎﻟﺖ ﺗﮭﯽ۔ ﺍٓﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﮭﺎﮔﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ ’’ ﻟﻮﮔﻮ! ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔‘‘
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ﺗﻢ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﯽ ﺍﻃﻼﻉ
ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ۔‘‘

ﭼﺮﻭﺍﮨﺎ ﺑﻮﻻ ’’ﺟﺐ ﺗﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ
ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﺗﮭﮯ، ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍﯾﮟ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺧﻮﻑ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﻧﺪﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍٓﻧﮑﮫ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮞﺪﯾﮑﮭﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍٓﺝ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ
ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯿﮍﯾﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮍﯾﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍٔﺕ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔‘‘

ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺭﺧﯿﻦ ﮐﻮ ﺩﻋﻮﺕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﻭﮦ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ
ﻓﺎﺭﻭﻕ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﮩﺎﮌ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻨﮑﺮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﮔﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﮐﮯ 5ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ*، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﺟﺲ ﺧﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﺎ ﺟﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﺠﻮﺍﯾﺎ، ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﮐﺒﺮ ﮐﯽ ﺻﺪﺍﺋﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﻭﮨﺎﮞ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺻﺮﻑ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺟﺐ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 245 ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ۔

ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮈﺍﮎ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻂ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﻮﻟﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺎﮨﯽ ﻭﺭﺩﯼ ﭘﮩﻨﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﻮﺋﯽ ﻓﻮﺟﯽ ﺟﻮﺍﻥ 6 ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﭩﯽ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺴﯽ ﺑﭽﮯ، ﻣﻌﺬﻭﺭ، ﺑﯿﻮﮦ ﯾﺎ ﺑﮯ ﺍٓﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ، ﻭﮦ ﺳﻮﺳﺎﺋﭩﯽ، ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﻮ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ، ﻣﺎﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺍٓﺝ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﻤﺘﺮﯼ ﮐﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﮏ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﺍﺋﯿﮟ ﺑﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

*ﻻﮨﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ
ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ’’ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﯾﺎﺩ ﺍٓﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔‘‘
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﮨﺮ ﻻﻝ ﻧﮩﺮﻭ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ’’ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍٓﺝ ﭼﻨﮕﯿﺰ ﺧﺎﻥ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ‏( ﺣﻀﺮﺕ ‏) ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ‏( ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ‏) ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ۔‘‘

جن کے بارے میں مستشرقین اعتراف کرتے ہیں کہ "اسلام میں اگر ایک عمر اور ہوتا تو آج دنیا میں صرف اسلام ہی دین ہوتا."

ﮨﻢ ﺍٓﺝ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ، ﺟﻦ
ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ،
’’ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﺒﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﮨﻮﺗﮯ-``

मानव इतिहास का सब से महान योद्धा और विजेता...!!!

हमने बचपन में पढ़ा था मकदूनिया का अलेक्जेन्डर 20 साल की उम्र में बादशाह बना था, और 23 साल की उम्र में मकदूनिया से निकला, उसने सबसे पहले यूनान फतह किया, उसके बाद वह तुर्की में दाखिल हुआ, फिर ईरान के दारा को शिकस्त दी, फिर वह शाम पहुंचा, फिर उसने यरुशलम और बाबुल का रुख किया, फिर वह मिस्र पहुंचा और उसके बाद भारत आया, भारत में उसने पोरस से जंग लड़ी, अपने प्यारे घोड़े की याद में फालिया शहर आबाद किया, मकरान से होता हुआ वापसी का सफ़र आरम्भ किया. रास्ते में टाइफ़ाइड हो गया और ३२३ ईसा मसीह पूर्व ३३ साल की उम्र में बख्त नसर के महल में उसका देहान्त हो गया...। दुनिया को आज तक यही बताया गया है कि वह मानव इतिहास का सबसे महान योद्धा, विजेता और बादशाह था, और इतिहास ने उसके कारनामों की वजह से उसे अलेक्जेन्डर दी ग्रेट का नाम दे दिया, और हम ने उसे सिकन्दरे आज़म यानी बादशाहों का बादशाह बना दिया...।
लेकिन आज इक्कीसवीं शताबदी के इतिहासकारों के सामने मैं यह सवाल रखता हूँ “ की बताओ क्या हज़रत उमर बिन खत्ताब रज़ियल्लाहु तआला अन्हु के होते हुए अलेक्ज़ेन्डर को सिकन्दरे आज़म कहलाने का हक़ हासिल है?

मैं दुनिया भर के इतिहासकारों को सिकंदरे आज़म और हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु अन्हु की विजेताओं और कारनामों की तुलना करने की दावत देता हूँ, आप भी सोचिये:

अलेक्जेन्डर बादशाह का बेटा था, उसे विश्व के बेहतरीन लोगों ने घोड़सवारी सिखाई, उसे अरस्तु जैसे गुरु का साथ मिला और जब वह २० वर्ष का हो गया तो तख्त व ताज सोने की थाल में सजा कर पेश कर दिया गया। जबकि उसके मुक़ाबिले में हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु अन्हु की ७ पुश्तों में कोई बादशाह नहीं गुज़रा था, आप भेड़, बकरियां और ऊँट चराते चराते बड़े हुए थे, आपने तलवार और तीर चलाना भी किसी अकेडमी से नहीं सिखा था.,
अलेक्जेन्डर ने आर्गनाइज़्ड आर्मी के साथ १० वर्षों में १७ लाख वर्ग मील का इलाक़ा जीता था, जब्कि हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु अन्हु ने आर्गनाइज़्ड आर्मी के बगैर १० वर्षों में २२ लाख वर्ग का छेत्र जीता था, और उसमें रूम व ईरान की सुपर पवार शक्तियां भी थीं...। आजके सेटेलाईट, मिसाइल, परमाणु बम और पनडुब्बियों के दौर में भी दुनिया के किसी हुक्मरान के पास इतनी बड़ी हुकूमत नहीं है, जो हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु अन्हु ने न सिर्फ यह कि घोड़ों की पीठ पर जिताया था, बल्कि उसका शासन भी बहुत ही कामयाबी के साथ चलाया था...।
अलेक्जेन्डर ने अपनी विजय के दौरान अनगिनत जरनलों को क़त्ल करवाया, अनगिनत कमांडरों और फौजी जवानों ने उसका साथ छोड़ा, उसके खिलाफ विद्रोह भी हुआ, भारत में उसकी फौजों ने आगे बढ़ने से इनकार भी कर दिया था, लेकिन हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु अन्हु के किसी साथी को उनके हुक्म से इनकार की जुरअत ना हो सकी।
वह ऐसे कमान्डर थे कि उन्होंने ठीक मैदाने जंग में दुनियाए इस्लाम के सबसे बड़े सालार हजरत खालिद बिन वलीद (रजियल्लाहु अन्हु ) को निलंबित कर दिया और किसी को इस हुक्म के खिलाफ चूं करने की भी हिम्मत नहीं हुई। आपने हजरत साद बिन अबी वक्कास (रजियल्लाहु अन्हु) को कूफे की गवर्नरी से हटा दिया, हजरत हारिस बिन काब रजियल्लाहु अन्हु से गवर्नरी वापस ले ली, मिस्र के गवर्नर हजरत अम्र बिन आस रजियल्लाहु अन्हु का माल ज़ब्त कर लिया, और हमस के गवर्नर को वापस बुला कर मोटे ऊनी कपडे पहना कर ऊंट चरवाए; लेकिन किसी को भी इनकार की हिम्मत नहीं हुई।
अलेक्जेन्डर (सिकंदरे आज़म) ने १७ लाख वर्ग क्षेत्र पर विजय प्राप्त की मगर दुनिया को कोई सिस्टम न दे सका।जबकि हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु अन्हु ने दुनिया को ऐसे सिस्टम दिये जो आज तक पूरी दुनिया में परचलित हैं।
सन: हिजरी साल की शुरुआत की।
जेल का ख़्याल दिया।
अज़ान देने वालों की तनखाहें मुक़र्रर कीं।
मस्जिदों में रोशनी का इन्तिज़ाम किया।
पुलिस का मुहकमा बनाया।
एक मुकम्मल न्यायिक वयवस्था की स्थापना की।
आपका न्याय इतना सच्चा और मिसाली था कि सच्चे न्याय को “फ़ारूकी न्याय” के नाम से जाना जाने लगा।
सिंचाई की वयवस्था की स्तापना की।
फौजी छावनियां बनवाईं, और फ़ौज का मुहकमा क़ायम किया।
आपने दुनिया में पहली बार दूध पीते बच्चों, माजूरों, बेवाओं, और बे असराओं के भत्ते जरी किए।
आपने दुनिया में पहली बार हुक्मरानों, सरकारी कारिन्दों और गवर्नरों की पूंजी डिक्लेयर करने का उसूल दिया।
आपने बेइन्साफी करने वाले जजों को सजा देने का परावधान भी शुरू किया।
आपने दुनिया में पहली बार आफिसर रैंक का उत्तरदायित्त्व तय किया।
आप रातों को तिजारती काफिलों की चौकीदारी करते थे।

आपके बारे में कुछ और जानकारी:

आपका कहना था की जो हुक्मरान न्याय करते हैं वह रातों को बेख़ौफ़ सोते हैं।
आपकी मुहर पर लिखा था “ उमर! नसीहत के लिए मौत ही काफी है”।
आपके दस्तरखान पर कभी दो सालन नहीं रखे गये।
आप ज़मीन पर सर के नीचे ईंट रख कर सो जाते थे। सफ़र में जहां कहीं नींद आती पेड़ पर चादर तान कर उसके नीचे नंगी ज़मीं पर लेट जाते।
आपके कुरते पर १४ पैवन्द थे, जिसमें से एक चमड़े का भी था।
आप मोटा खुरदुरा कपड़ा पहनते थे, नर्म व बारीक कपडे से नफरत थी।
आप जब भी किसी को सरकारी ओहदे पर तैनात करते, उसकी कुल पूंजी का आंकलन कर अपने पास लिख लेते, और भविष्य में जब कभी उसकी पूजी में बढ़ोतरी पाते तो उसका हिसाब मांगते।
आप जब किसी को गवर्नर बनाते तो उसे नसीहत करते: “ कभी तुर्की घोड़े पर मत बैठना, बारीक कपड़े मत पहनना, छना हुआ आटा ना खाना, दरबान ना रखना, और किसी फर्यादी पर दरवाज़ा बंद ना करना।
आप फरमाते: ज़ालिम को मआफ़ कर देना मजलूमों पर ज़ुल्म है।
आपका यह जुमला आज भी मानवीय अधिकारों के छेत्र में चार्टर की हैसियत रखता है: “मायें बच्चो को आज़ाद पैदा करती हैं, तुमने उन्हें कबसे गुलाम बना लिया”।
आप कहते, “मैं अक्सर सोचता हूं की उमर कैसे बदल गया”।
शहादत के वक़्त आप पर क़र्ज़ था, आपकी वसियत के मुताबिक़ आपका अकेला घर बेच कर उसे अदा किया गया।
आप दुनिया के अकेले ऐसे हाकिम थे जो कहा करते कि: “मेरे दौर में अगर दरया-ये-फुरात के किनारे कोई कुत्ता भी भूक से मर गया तो उसकी सजा उमर को भुगतना होगी”।
आपके अदल-व-इन्साफ की यह हालत थी कि आपका इन्तिकाल हुआ तो मुल्क के एक दूर के इलाक़े का एक चरवाहा भागता हुआ मदीने पहुंचा और चिल्लाते हुए बोला: लोगो हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु अन्हु का इन्तिकाल हो गया...। लोगों ने हैरत से पूछा: तुम मदीना से हजारों मील दूर जंगल में रहते हो, तुम्हें इस हादसे की खबर किसने दी? चरवाहा जवाब में बोला: जब तक हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु अन्हु जिंदा थे मेरी भेड़ें जंगल में बेख़ौफ़ फिरती थीं और कोई दरिंदा उनकी तरफ आँख उठाकर भी नहीं देखता था लेकिन आज पहली बार एक भेड़िया मेरी भेड़ का बच्चा उठाकर ले गया, मैंने भेड़िये की हिम्मत से जान लिया की हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु तआला अन्हु अब इस दुनिया में नहीं रहे...।”

मैं दुनिया भर के इतिहासकारों को दावत देता हूँ, वह सिकंदर ए आज़म कहलाने वाले अलेक्जेंडर को हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु तआला अन्हु के सामने रख कर देखें उन्हें सिकंदर हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु अन्हु की तुलना में पहाड़ के सामने कन्कर दिखाई देगा...।
अलेक्जेंन्डर की बनाई सलतनत उसकी मौत के ५ वर्ष बाद ही ख़त्म हो गई, जबकि हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु तआला अन्हु ने अपने ज़माने में जिस जिस क्षेत्र में इस्लाम का झन्डा भिजवाया, वहां आज भी अल्लाहु अकबर अल्लाहु अकबर की बांग सुनाई देती है...। वहां आज भी लोग अल्लाह के सामने सजदा करते हैं।
विश्व में अलेक्जेन्डर का नाम सिर्फ किताबों में सिमट कर रह गया है, जबकि हजरत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु तआला अन्हु की बनाई हुई शासन व्यवस्था आज भी दुनिया के २४५ देशों में किसी न किसी शक्ल में मौजूद है...।
आज भी किसी डाक खाने से जब कोई ख़त निकलता है, पुलिस का कोई सिपाही वरदी पहनता है, कोई फौजी जवान ६ माह बाद छुट्टी पर घर जाता है, या फिर हुकूमत किसी बच्चे, माज़ूर, बेवा, या किसी बे आसरा को वजीफा देती है तो वह बे इख्तियार हज़रत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु तआला अन्हु को अज़ीम तसलीम करती है...। वह उन्हें इतिहास का सबसे बड़ा सिकंदर मान लेती है, सिवाये उन मुसलमानों के जो आज सख्त हीनता (Inferiority Complex) के कारण कलमा तक पढ़ने से पहले दायें बायें देखते हैं...।

लाहौर के मुसलमानों ने एक बार अंग्रेज़ सरकार को धमकी दी थी: “अगर हम घरों से निकल पड़े तो तुम्हें चन्गेज़ खान याद आ जायेगा...।”
उसपर जवाहर लाल नेहरु ने मुसकुरा कर कहा था “अफ़सोस आज चन्गेज़ खान की धमकी देने वाले मुसलमान यह भूल गये की उनकी तारीख़ में एक हज़रत उमर फ़ारूक़ ए आज़म रज़ियल्लाहु तआला अन्हु भी थे”. जिनके बारे में यूरोपियन स्कालर मानते हैं कि “इस्लाम में अगर एक उमर और होते तो आज दुनिया में सिर्फ़ इस्लाम दीन ही होता...।”

पढ़ो, सोचो, और न्यायसंगत विचार करो : कौन है मानव इतिहास का सब से महान योद्धा और विजेता...!!!